ghazal

ghazal
ghazal

بچھڑا ہے جو اک بار تو ملتے نہیں دیکھا

اِس زخم کو ہم نے کبھی سِلتے نہیں دیکھا

 

اک بار جِسے چَاٹ گئی دُھوپ کی خواہش

پھر شاخ پر اُس پُھول کو کِھلتے نہیں دیکھا

 

یک لخت گِرا تو جڑیں تک نکل آئیں

جس پیڑ کو آندھی میں بھی ہلتے نہیں دیکھا

 

کانٹوں میں گِھرے پُھول کو چُوم آئے گی لیکن

تتلی کے پروں کو کبھی چِھلتے نہیں دیکھا

 

کس طرح میری روح ہری کر گیا آخر

وہ زہر جسے جسم میں کِھلتے نہیں دیکھا


 

Post a Comment

0 Comments