ghazal

ghazal
ghazal


میں تلخیِ حیات سے گھبرا کے پی گیا

غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا

 

چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زُلفِ یار

کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

 

میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور

میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا

 

دنیائے حادثات ہے ایک دردناک گیت

دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا

 

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا

پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

 

ساغر وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجیئے حضور

ان کی گُزارشات سے گھبرا کے پی گیا

  

Post a Comment

0 Comments